لماذا التوكل على الله؟
اللہ پر توکل ایمان کی روح اور توحید کی بنیاد ہے، اسباب اختیار کرکے نتیجہ اللہ پر چھوڑنے کا نام توکل ہے، بعض حضرات ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسباب اختیار کئے بغیر اللہ پر توکل کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں، اس قسم کے توکل کا شریعت نے حکم نہیں دیا ہے، قرآن میں ایسی تعلیم ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسی کوئی تعلیم دی ہے۔ اس بات پر قرآنی آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ عظام اور سلف صالحین امت کے واقعات شاہد عدل ہیں۔ ہم پہلے قرآن کریم سے توکل کی فضیلت و اہمیت بیان کرتے ہیں، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿ ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ ﴾ (الطلاق: 3) "جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا"۔ نیز اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ ان کنتم آمنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین ﴾ (یونس: 84) "اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم مسلمان ہو"۔ نیز ارشاد الہی ہے: ﴿ وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مؤمنین ﴾ (المائدہ: 23) "تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے"۔ نیز ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون ﴾ (التوبہ: 51) "مومنوں کو تو اللہ کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے"۔ ان آیات پاک میں اللہ تعالی نے مومنوں کو اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا حکم اور اس کی انتہائی ترغیب دی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز میں اور مختلف ڈھنگ سے اللہ تعالی پر توکل وبھروسہ کی ترغیب دی ہے، چند احادیث پاک ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:
1۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:{ یدخل الجنۃ من امتی سبعون الفا بغیر حساب قالوا من ہم یا رسول اللہ؟ قال ہم : الذین لا یسترقون، ولا یتطیرون، ولا یکتوون، وعلی ربہم یتوکلون } (مسلم: 321) "میری امت کے ستر ہزار آدمی بلا حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: "یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدفالی نہیں لیتے، آگ سے نہیں دغواتے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں""۔
2- امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: { لو انکم کنتم توکلون علی اللہ حق توکلہ لرزقتم کما یرزق الطیر، تغدو خماصا و تروح بطانا } (ترمذی: 2266) "اگر تم لوگ اللہ تعالی پر ایسا توکل کرو جیسا کہ اس کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے، جیسے ایک پرندہ کو رزق ملتا ہے، صبح خالی پیٹ نکلتا ہے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتا ہے"۔
اس حدیث کی وضاحت میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری تحفۃ الاحوذی میں علامہ مناوی کا قول نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: " کسب ومحنت سے روزی حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اللہ تعالی کے رزق عطا کرنے سے ہی روزی ملتی ہے، اس سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ توکل بیکاری اور محنت چوری کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں سبب اختیار کرنا ضروری ہے، کیونکہ پرندوں کو طلب اور محنت کرنے سے روزی دی جاتی ہے۔ اسی بنا پر امام احمد فرماتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ کسب اور جدوجہد ترک کردیا جائے، بلکہ یہ اس امر پر دلیل ہے کی رزق کی طلب اور اس کے لئے جدوجہد کی جائے"۔ اس بات کی مزید وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت والے واقعہ سے ہوتی ہے کہ آپ اسباب اختیار کرتے ہوئے غار ثور میں چھپ گئے، قریش آپ کی تلاش میں غار کے منہ پر پہنچ گئے ، گھبراکر ابو بکر رضی اللہ نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: { لو ان احدہم نظر تحت قدمیہ لابصرنا، فقال: ما ظنک یا ابا بکر باثنین اللہ ثالثہما } (بخاری: 3380، مسلم: 4389) "اگر قریش کا کوئی ایک آدمی بھی اپنا پیر ہٹاکر دیکھے تو ہمیں دیکھ لے گا، یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! ان دونوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالی ہے"۔
3- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کی طرف غزوہ ذات الرقاع سے واپس آرہے تھے کہ ایک جھاڑی والی وادی میں دوپہر کو قیلولہ کے لئے اترے، جس کو جہاں جگہ ملی ادھر ادھر آرام کرنے لگے، آپ بھی ایک ببول کے درخت کے نیچے سوگئے اور اپنی تلوار اس درخت پر لٹکادی، جب سارے لوگ سوگئے تو بے خبری میں موقع کو غنیمت جان کر ایک مشرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور درخت سے تلوار اتار کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہوگیا ، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی، اس کافر نےبڑے تکبر سے کہا:اے محمد! آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اطمینان وسکون سے جواب دیا: اللہ۔ یہ سننا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئ، آپ نے اٹھالی اور اس کافر سے فرمایا: اب بتاؤ تم کو مجھ سے کون سکتا ہے؟ اس نے کہا: کوئی نہیں! آپ نے اسے معاف کردیا اور اسے چھوڑ دیا۔ (بخاری: 3822) ۔
اللہ پر توکل کا ایک اور ثمرہ دیکھنا ہو تو ہاجرہ علیہا السلام کا درج ذیل واقعہ پڑھئے، قلب کو اطمینان نصیب ہوگا اور ایمان میں تازگی اور بشاشت پیدا ہوگی، واقعہ کچھ اس طرح ہے:
جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے شیر خوار بیٹے اسماعیل اور اس کی ماں ہاجرہ علیہما السلام کو مکہ کی غیر آباد سنسان وادی میں بیت اللہ کے پاس ایک درخت کے نیچے چھوڑ کر اور ایک مشکیزہ پانی اور کچھ دے کر واپس جانے لگے تو بے سہارا ہاجرہ نے اپنے شوہر ابراہیم سے دریافت کیا : اے ابراہیم ! آپ ہمیں اس وادی میں چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟ جبکہ یہاں کوئی چیز ہے نہ انسان ہے؟ابراہیم علیہ السلام نے مڑکر تک نہیں دیکھا اور چلتے رہے، کئی بار دریافت کرنے پر تیسری دفعہ ہاجرہ نے پوچھا: کیا آپ کو اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا: ہاں! اللہ نے مجھے یہی حکم دیا ہے۔ یہ سن کر ہاجرہ نےجو اللہ پر توکل وبھروسہ کی بات کہی وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، انہوں نے کہا: "جب یہ بات ہے تو اللہ تعالی ہم ماں بیٹے کو ہلاک وضائع نہیں کرے گا" ۔ (بخاری: 3111) ۔ پھر پانی کا ختم ہوجانا اور ہاجرہ علیہ السلام کا پانی کی تلاش میں صفا ومروہ پہاڑیوں کے مابین سات چکر لگانا اور اللہ تعالی کا ان پر رحم کھاکر جبریل علیہ السلام کو بھیجنا اور ان کا زمین پر پیر مار نا جس سے زمزم کا ابل پڑنا مشہور واقعہ ہے اور ﴿ ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ ﴾ (الطلاق: 3) "جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا"، کی بہترین مثال، جس کی نظیر کہیں اور کسی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اللہ پر ایسے ہی توکل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العامین۔