ทำไมบรรดามุสลิมถึงไวต่อความรู้สึกเกี่ยวกับท่านนบี ศ็อลลัลลอฮุอะลัยฮิวะสัลลัม
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سید الانبیاء اورخاتم النبیین ہیں، آپ پر قرآن جیسی حکیمانہ کتاب نازل ہوئی، آپ کی شریعت تمام پچھلی شریعتوں کو منسوخ کرتی ہے، قرآن گزشتہ تمام کتابوں کو منسوخ کرتا ہے، آپ کی امت تمام امتوں میں افضل ہے، آپ کو اللہ تعالی نے محشر میں مقام محمود، لواء الحمد، حوض کوثر اور جنت میں سب سے اعلی وافضل مقام ’وسیلہ’ عطا فرمایا ہے، انبیاء و رسل میں آپ ہی جنت کا دروازہ کھولیں گے اورسب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، آپ کی امت تمام امتوں میں سب سےپہلے جنت میں داخل ہوگی، اللہ تعالی نے خود آپ کی بلند اخلاقی کی شہادت دی ہے، اللہ تعالی اور اس کے تمام ملائکہ آپ ہی پر درود وسلام بھیجتے ہیں، اللہ نے آپ کو آپ کی دنیوی زندگی ہی میں معراج سے سرفراز کیا، آپ کی دیانت وامانت کی شہادت آپ کے جانی وبدترین دشمن ابو جہل اور قریش بھی دیتے تھے۔ آپ کی صداقت کی شہادت مکہ کے شجر وحجر بھی دیتے تھے، آپ کی شجاعت وبہادری پرغزوہ حنین اور مدینہ کی خوف ناک رات شاہد عدل ہیں، آپ کی عفت وپاک دامنی کی شہادت ازواج مطھرات دیتی ہیں، آپ کی عدالت کی شہادت اسامہ کے والد اور چچا دیتے ہیں، آپ کے تحمل وبردباری کی گواہی عرب کے بدو، مدینہ کے یہودی اور ثمامہ بن اثال دیتے ہیں، آپ کے افضل ترین میزبان ہونے کی شہادت وہ اعرابی دیتا ہے جس نے آپ کے بسترہ و کمرہ کو پاخانہ کی غلاظت سے آلودہ کردیا تھا، آپ کے دینی استقامت کی شہادت اسامہ کی سفارش والا واقعہ دیتا ہے، آپ کی شب بیداری وتہجد گزاری کی شہادت آپ کے سوجے ہوئے قدم دیتے ہیں، آپ کے حسن عبادت کی شہادت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت دیتی ہے، آپ کے حسن سلوک کے بارے دس سالہ انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کرو، آپ کے حسن اخلاق کے بارے معلوم کرنا ہو تو قرآن کے سورہ القلم کا مطالعہ کرو، آپ کے عفو ودرگزر کا دریا مشاہدہ کرنا ہو تو فتح مکہ کے وقت مکہ کے خون کے پیاسے باسیوں سے دریافت کرو، آپ کا مقام ومرتبہ معلوم کرنا ہو تو آیت (فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم) الخ کی تفسیر پڑھو، یہ داخلی شہادت نمونہ مشتے از خروارے کے مصداق ہے ورنہ اہل علم نے آپ کی سیرت پر کتابوں کے پشتارے لگا دیئے ہیں، غرض آپ کی کس خوبی کا ذکر کریں اور کس کو ترک کریں، ماحصل یہ ہے کہ:
حسن یوسف ، دم عیسی، ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اور سب کا خلاصہ یہ ہے کہ:
یا صاحب الجمال ویا سید البشر من وجھک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ یہ تو اپنوں کی شہادت ہے اور اپنے تو تعریف میں آسمان وزمین کے قلابے ملا دیتے ہیں، غیر کی شہادت اس معاملہ میں زیادہ معتبر مانی جاتی ہے، مشہور عربی کہاوت ہے: ’والفضل ما شہدت بہ الاعداء’ تو ایسے بیمار ذہن لوگوں کی ضیافت طبع کے لئے غیروں کی درج ذیل شہادت پڑھئے، اطمینان ہوجائے گا ان شاء اللہ:
مشہور فلسفی اور مفکر جارج برناڈشا نے یہ شہادت دی ہے:
" اگر آئندہ سو سال کے اندر کسی مذہب کے انگلستان بلکہ پورے یورپ میں عوام کے ذہن وفکر پر چھانے کا امکان ہے تو وہ صرف اسلام ہی ہوسکتا ہے۔ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی میری نگاہ میں بڑی قدر ومنزلت ہے اور اس کی وجہ اس مذہب کی اثراندازی اور اس کی طاقت ہے، اس مذہب کی تعلیمات میں ایسی جامعیت اور ہمہ گیریت ہے کہ وہ ہر دور میں زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر دور میں انسان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ میرا راسخ عقیدہ ہے کہ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان اس عالم نو میں کلی اختیارات حاصل کرلے تو بنی نوع انسان کےتمام مسائل اس طرح حل ہوسکتے ہیں کہ امن وآشتی، خوش حالی اور فارغ البالی کی منزل تک انسان کی رسائی ہوسکتی ہےجس کی تلاش میں انسان آج در بدر اور خاک بسر ہے "۔ (محمد رسول اللہ- 283)۔
انگریزی سیاح سر ویلیم میور اپنی مشہور کتاب "لائف آف محمد" میں رقم طراز ہیں:
ہمارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی اتباع اور اس کا احترام مناسب ہے، آپ اپنے متبعین کے ساتھ ہمیشہ نرمی اور احترام سے پیش آتے، آپ تواضع وخاکساری، محبت ورافت اور عاجزی وانکساری اور سخاوت وبھائی چارگی کا سر چشمہ تھے"۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: 165) ۔
یہی انصاف پسند محقق سر ولیم میور نے اپنی مذکورہ کتاب میں آگے یہ اعتراف کیا ہے:
" محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا جب مطالعہ کیا گیا تو یہی حقیقت سامنے آئی کہ وہ نیک طبیعت ، ستھری نیت، بلند اخلاق اور تمام خوبیوں کا مجسم تھے ۔ ان خوبیوں کی ماضی، حال اور مستقبل میں کلی طور پر کوئی نظیر نہیں مل سکتی ہے "۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: ص 211)۔
لندن یونیورسٹی میں مشرقیات کے سابق پروفیسر الفریڈ گلیوم نے اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
" سب سے پہلے اس بات کا یقین کرنا ضروری ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کی عظیم شخصیت تھے، آپ کو تمام سماجی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں خرق عادت قسم کی قدرت حاصل تھی "۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: 171)۔
ویانا یونیورسٹی کے لاء فیکلٹی کے پرنسپل پروفیسر چارل نے سن 1937ءمیں حقوق کے موضوع پر منعقد ایک کانفرنس میں کہا تھا:
" انسانیت کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شخصیت کی نسبت کا فخر حاصل ہے، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے امی ہونے کے باوجود آج سے تقریبا تیرہ سو سال قبل ایسی شریعت پیش کی کہ اگر ہم دو ہزار سال بعد بھی اس چوٹی تک پہنچ جائیں تو ہم جیسے اہل یورپ کے لئے باعث سعادت ہوگا "۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: ص209)۔
جرمن شاعر گوئٹے نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو سنا تو کہہ اٹھا:
" اگر اسلام یہی ہے تو ہم سب مسلمان ہیں اور ہر صاحب فضل اور صاحب شریعت انسان مسلمان تھے "۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں:ص 213)۔
ٹریپٹی کالج آکسفورڈ کے فیلوریوزنڈ باسورتھ اسمتھ نے سن 1874ء میں اپنے ایک لیکچر میں کہا:
" عیسائی دنیا میں جانوروں اور پرندوں کی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے، لیکن یہ پیغمبر اسلام کی تعلیم کا اثر ہے کہ آج دنیا میں پرندوں کو قابل رحم سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت جب یورپ پہنچی تو یورپ نے جن اچھی باتوں کو اپنایا ان میں جانوروں اور پرندوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی بھی شامل تھی "۔ (اعتراف حق ص 168)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد شادیوں کے بارے میں یہی انصاف پسند مصنف کہتا ہے:
" یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ آپ کی بیشتر شادیاں مخصوص حالات کے تحت ہوئیں، یہ شادیاں جذبہ رحم کا نتیجہ تھیں، بیشتر شادیاں ان خواتین سے ہوئیں جو بعض وجوہات اور واقعات کی بنا پر قابل رحم حالت میں تھیں، بیشتر خواتین جن سے آپ نے شادیاں کیں بیوائیں تھیں جو صاحب ثروت بھی نہیں تھیں اور خوبصورتی میں بھی قابل ذکر نہیں تھیں بلکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ بے سہارا تھیں۔ آپ پاکباز اور صالح انسان تھے، آپ کا دامن ہمیشہ پاک اور بے داغ رہا ، حالانکہ اس معاشرہ میں عورتیں بے وقعت اور کھلونا تھیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بے وقعت مخلوق کو وقار بخشا "۔
مسٹر پیر کریٹس قرآن کی تعلیم حجاب کو اس %B