নারী স্বাধীনতা আন্দোলন
عورت کا وجود کائنات کے رنگ وبو میں ایک حسین اضافہ ہے، انسانی زندگی کا کون سا موڑ ہے جہاں عورت کی حصہ داری نہ ہو، حیات انسانی کا کون سا دور ہے جس کی تعمیر وترقی میں عورت نے اپنی ساجھے داری درج نہ کرائی ہو، کون سا علم وفن ہے جس میں عورت نے قابل قدر کارنامہ انجام نہ دیا ہو، کون سا شعبہ حیات ہے جس میں عورت کا نمایاں کردار نہ ہو، کون سا معاشرہ ہے جس کو بام عروج تک پہنچانے میں عورت نے ہاتھ نہ بٹایا ہو اور کون سا ملک ہے جس کی سماجی واجتماعی، اقتصادی ومعاشی، علمی وسائنسی، دینی واخلاقی ترقی وفروغ میں صنف نازک نے اپنی شراکت کی دھوم نہ مچائی ہو، یہاں تک کہ وہ شعبہ جو مردوں کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے، اس میں بھی عورتوں نے قابل قدر مہارت وصلاحیت پیدا کرکے اپنی تابناک تاریخ درج کرائی ہے، کون سا تاریخ کا طالب علم ہے جو میدان جہاد کی خنساء، دلی کی تاجدار رضیہ سلطان اور عدل جہانگیری کی کردار نورجہاں سے ناواقف ہے۔
اسلام کے زیر سایہ حجاب کی پابندی کرکے صنف نازک نے ہر وہ کارنامہ انجام دیا جو صرف اسی کا حصہ تھا، اسلام عورت کو میدان جہاد میں تلوار چلانے سے منع کیا ہے، نہ مسجد میں جانے سے، غزوہ احد میں ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے ابن قمئہ پر تلوار سے وار کا کون انکار کرسکتا ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید کرنے کی خبر اڑادی تھی اور مسجد نبوی میں انصار ومہاجر عورتوں کی حاضری ناقابل تردید حقیقت ہے۔ خنساء رضی اللہ عنہا اور جہاں گیر کی بہن زیب النساء کی شاعری کی داد نہ دینے والا آپ بے بہرہ ہے۔ اندلس کی مشہور محدثہ ام سعد علم حدیث میں باکمال تھیں، قرطبہ کی لبانہ علم حساب وہندسہ کی بڑی ماہر تھیں، الجبرا اور مساحت و پیمائش کے نہایت پیچیدہ مسائل وہ چٹکیوں میں حل کردیتی تھیں۔ اسلام عورت کو تعلیم حاصل کرنے سے منع کرتا ہے نہ تجارت ودکان داری کرنے سے، مسجد نبوی میں ہر جمعرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم وتربیت کے لئے عورتوں کا خصوصی حلقہ درس قائم کرتے تھے اور بنی قینقاع کے بازار میں صحابیہ عورت کا دکان داری کے لئے جانا اور ان کے ساتھ یہودیوں کی شر انگیزی اور ان کی پکار پر یہودی کا قتل تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔ اسلام صنف نازک کو زراعت سے روکتا ہے نہ جانور پالنے سے، اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما کا اپنے شوہر زبیر بن العوام کے گھوڑے کے لئے گھاس کاٹنے کے لئے جانا اور صحابیات کا اپنے شوہروں کے باغ میں آبپاشی و سینچائی کرنا مشہور واقعات ہیں۔ ہنگامی ، ایمرجنسی اور انتہائی ناگزیر حالت میں عورت کسی بھی معاملہ کی قیادت کرسکتی ہے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی جنگ جمل میں فوج کی قیادت تاریخ اسلام کا ایک اہم روشن باب ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے دوڑ کے مقابلہ کا واقعہ تو جہاں آشکارا ہے۔سردار دو جہاں محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صلح حدیبیہ کے موقع پر ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رائے کو قبول کرکے اس پر عمل کرنا، عورتوں کی عزت وتکریم کا زریں باب ہے، غرض کہ کون سے شعبہ ہائے حیات ہیں کہ اسلام نے عورت کو ان کے اپنے دائرے میں رہ کر کارہائے نمایاں انجام دینے کی اجازت نہیں دی ہے۔
جہاں تک عورتوں کے حقوق کا تعلق ہے تو اسلام نے عورتوں کو بحیثیت لڑکی یہ حق عطا کیا ہے کہ باپ اس کی پرورش وپرداخت کرے اور جس باپ نے تین لڑکیوں کی پرورش وپرداخت اور تعلیم وتربیت کی اس کو جنت کا مژدہ سنایا گیا ہے (ابوداود: 4481) ، جس بھائی نے اپنی دو بہنوں کی پرورش وپرداخت کی وہ بھی جنت کا مستحق ہے (حوالہ مذکور)، باپ یا بھائی یا کوئی بھی قریبی رشتہ دار ولی بالغ لڑکی کی مرضی کے بغیر دوسری جگہ اس کی شادی نہیں کرسکتا، (بخاری: 4741) ، وہ بھی اپنی پسند کا حق مہر لے کر، (النساء: 4)، بحیثیت بیوی اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور اس کے شوہر کو کائنات کا بہترین انسان اس وقت قرار دیا ہے جب وہ بیوی کے ساتھ بہتر شوہر ثابت ہو (ترمذی: 3830، ابن ماجہ: 1967) ، بحیثیت ماں عورتوں کے قدموں تلے جنت ہونے کی بشارت دی گئی ہے (نسائی: 3053) ، اور بحیثیت ایک عام عورت ہونے کے عورتیں مردوں کی مثل ہیں (ابوداود: 204) ، عورت اور مرد میں چند مخصوص مسائل کو چھوڑ کر کوئی فرق وامتیاز نہیں، وہ بھی عورتوں کی عفت وعصمت کے مفادات اور جسمانی ساخت کے پیش نظر ہیں، مثلا حجاب ، سفر میں محرم کی معیت کی شرط وغیرہ ، تاکہ عورت کسی درندہ صفت انسان کے جنسی ہوس کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔ اور وہ بھی اسلام کے عورت پر رحم وشفقت کی علامت کے طور پرہے، (مسند احمد: 12300) ، اسلام نے عورت کو ماں ، باپ، شوہر، بیٹے اور بھائی کی جائیداد میں وراثت کا حق دار بنایا ہے، کائنات کے پورے تاریخی ادوار میں اسلام ہی نے سب سے پہلے عورتوں کے حقوق کی آواز بلند کی ہےاور ان کو ان کا حق دیا ہے۔ یہ ہے وہ عزت و تکریم اورمقام ومرتبہ جو اسلام نے عورت کو دی جس کی مثال نہ کسی اور مذہب میں اور نہ ہی کسی قانون میں مل سکتی ہے ۔عورتوں کی ذلت ورسوائی، بے وقعتی وناقدری اور زبوں حالی وکسمپرسی کی حالت زمانہ جاہلیت میں اور آج کے نام نہاد روشن اور ماڈرن جاہلیت میں دیکھنا ہو تو ذیل کا بیان نہایت غور سے پڑھئے ان شاء اللہ پوری تسلی ہوجائے گی:
زمانہ جاہلیت میں عورت پوری دنیا میں عموما اور عرب معاشرہ میں خصوصا نہایت سخت آزمائشی دور سے گزر رہی تھی، عرب سوسائٹی میں لڑکیوں کو زندہ در گور کردیا جاتا تھا، اگر لڑکی زندہ در گور کئے جانے سے کسی طرح بچ جاتی تو اسے نہایت ذلت آمیز زندگی گزارنی پڑتی تھی، حالت عدت وفات میں بیوہ عورت کو ایک سال کے لئے الگ کمرے میں بند کردیا جاتا، اسے غسل کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور جب وہ اس قید سے ایک سال کے بعد باہر آتی تو اس کی شرمگاہ ایسی بدبودار اور زہر آلود ہوجاتی کہ اگر اس کی غلاظت کو مینگنی یا پتھر سے پونچھ کر کسی بکری پر مل دیا جاتا تو اس کی زہرناکی سے بکری مرجاتی تھی، اس کو اپنے قریبی لوگوں کے ترکہ سے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا، خواہ وہ کتنی ہی غربت ومفلسی کی زندگی نہ گزار رہی ہو، اس سے بھی دو قدم آگے وہ خود اپنے متوفی شوہر کے مال میراث کی طرح اس کے وارثین میں تقسیم کردی جاتی تھی، عورت کو ایذا دینے کی غرض سے شوہر دسیوں مرتبہ طلاق دیتا اور رجوع کرلیا کرتا تھا، طلاق کی کوئی حد بندی نہ تھی ، نیز جتنی مرضی ہوتی دسیوں عورتوں کو بلا تحدید اپنی زوجیت میں رکھتا تھا اور جانوروں کی طرح استعمال کرتا تھا۔ جاہلیت میں عورت کی جانوروں اور تجارتی سامانوں کی طرح بلکہ اس سے بھی بدتر بازاروں میں خریدوفروخت ہوتی تھی۔
بر صغیر ہند میں عورتوں کی اس سے بھی زیادہ بری حالت تھی، عورت کو اقرباء کے میراث میں کوئی حق نہ تھا اور نہ آج جدید دور میں ہے، قدیم ہندوستانی قوانین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وبائیں اور موت، جہنم اور آگ اورسانپوں کا زہر عورت سے بدرجہا بہتر ہے،اسے شوہر کی درازی عمر کے لئے ہر سال 36 گھنٹوں کا برت (روزہ) رکھنا پڑتا ہے، شوہر کے مرجانے پر اسے اس کی چتا میں ستی (جل جانا) ہوجانا پڑتا تھا، سن 1829ء میں ہندو سماج کے عظیم مصلح راجہ رام موہن رائے کی کوششوں سے قانونا یہ رسم ممنوع قرار دیئے جانے کے بعد آج بھی گاہے بگاہے اس رسم کے احیاء کی بات روپ کنور کی شکل میں عملا دکھائی دیتی ہے، اب جو عورت شوہر کی چتا پر ستی نہیں ہوتی ، اسے ہندو معاشرہ میں آج بھی ڈائن اور چڑیل سمجھاجاتا ہے اور دوسری شادی کرنا تو بہت دور کی بات ہے کبھی اپنے دل میں اس کا خیال بھی نہیں لاسکتی اور بسا آرزو کہ خاک شد کے مصداق بقیہ زندگی ذلت وکسمپرسی کے ساتھ اپنے سینے میں تمناؤں کو دفن کئے موت کی نیند سوجاتی ہے۔
عصر حاضر میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے والا مذہب عیسائیت کے عقیدہ کے مطابق عورت تمام گناہوں کا سر چشمہ اور ساری برائیوں اور فسق وفجور کی جڑ ہے، عورت ایسی ناپاک جنس ہے کہ اس سے اجتناب ضروری ہے، عورت خواہ ماں یا بہن جیسی پاکیزہ رشتہ دار کیوں نہ ہو تمام نیک اعمال کو تباہ وبرباد کردیتی ہے، بلکہ رومن ( اٹلی ) کے جدت پسندوںنے تو یہ قانون پاس کیا ہے کہ عورت مرد کے تابع رہتے ہوۓ اس کی غلام ہے اوراس کےمطلقا کوئی حقوق نہیں۔
اٹلی ہی میں ایک بڑے اجتماع میں عورت کے متعلق بحث وتمحیص کے بعد یہ پاس کیا گیاکہ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جسے کچھ بھی اہمیت حاصل نہیں ، اور عورت اخروی زندگی کی وارثنہیں بنےگی اور یہ کہ عورت پلید اور نجس ہے ۔
یہودیت میں یہودی عورت کا کیا حال تھا اس کا بھی ہم جائزہ لیتے ہیں ، یہودیوں کی مقدس کتاب"عہد قدیم"میں لاکھ تحریف وتبدیل کے باوجود آج بھیمندرجہ ذیل بات موجود ہے :
"میں اور میرا دل حکمت وعقل کے علم اوراسے حاصل اورتلاش کرنے کے لیے گھوما پھرا تاکہ میں شرکو جو کہ جہالت ہے اورحماقت کوجو کہ جنوں ہے، معلوم کرسکوں ، تومیں نے موت کوپایاعورت جو کہ کھڑکی اوراس کادل تسمہ اوراس کے ہاتھ بیڑیاں ہیں ۔ سفر الجامعۃ الاصحاح ( 7 : 25 - 26 ) ۔
یہ تومعلوم ہی ہے کہ عہد قدیم پریہودی اورعیسائی دونوں کا ایمان ہے اور وہ اسےمقدس سمجھتے ہیں ۔
زمانہ قدیم میں عورت کا یہ حال تھا اورموجودہ و ماضی قریب کےدورمیں عورت کو کیا کچھ حاصل تھا اس کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات کرتے ہیں :
ڈنمارک کا ایک مصنف (wieth kordsten) عورت کے بارے میں کیتھولک چرچ کےنقطہنظر کی وضاحت کرتے ہوۓ کہتا ہے :
"دوروسطی میں یورپی عورت کا بہت ہی کم خیال رکھا جاتا تھا اس لئے کہ کیتھولکچرچ کےمذہب میں عورت دوسرے درجہ کی مخلوق شمارہوتی ہے"۔
سن 586 عیسوی کو فرانس میں عورت کے بارے میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جسمیں اس بات پرغوروخوضکیا گیا کہ آیا عورت انسان شمار ہوتی ہے یا نہیں ؟
مذکورہ کانفرنس میں بحث وتمحیص کے بعد یہ قرار پایا کہ عورت انسان تو ہے لیکن وہ مردکی خدمت کے لئے پیدا کی گئ ہے ۔
فرانسیسی قانون کی شق نمبر (217217 ) میں مندرجہ ذیل بات کہی گئ ہے :
"شادی شدہ عورت ( اگرچہ اس کی شادی اس بنیاد پرہوئی ہو کہ اس کی اوراس کے خاوندکی ملکیت علیحدہ ہی رہے گی) کا کسی کوکچھ ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اورنہ اس کے لئے اپنیملکیت کومنتقل کرنا روا ہے اورنہ ہی اسے کسی کے پاس رہن رکھنا درست ، اورنہ ہی وہ عوض یا بغیرعوضاپنے خاوند کی معاہدے میں شرکت کے بغیر یا پھر شوہر کی لکھی ہوئیموافقت کےبغیر مالک بن سکتی ہے"۔
انگلینڈ میں ہنری ہشتم نے انگریز عورت پرکتاب مقدس پڑھنا حرام قرار دیا تھا ، حتیکہ ( 1850 1850) عیسویتک عورتوں کوشہری ہی شمار نہیں کیا گیا ، اوران کے لئے( 1882)عیسویتک کوئی کسی قسم کے حقوق شخصی نہیں تھے ۔ سلسلۃ مقارنۃالادیان ،تالیف احمد شلبی جلد ( 333) صفحہ (210 -213213 ) ۔
دورحاضرمیں یورپ و امریکہ اور دوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑیمخلوق ہے جوصرف اورصرف تجارتی اشیاء کی خرید وفروخت کےلیے استعمال ہوتی ہے ، وہاشتہاری کمپنیوں کا جز ء لاینفک ہے ، بلکہ یہاں حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کےکپڑے تک اتروا دیئے گۓ ہیں اوراس کے جسم کوتجارتی اشیاء کے لیے مباح کرلیا گیا ہے،اورمردوں نے اپنے بناۓ ہوۓ قانون سے اسے اپنے لئے ہر جگہ پراس کے ساتھ کھیلنا ہیمقصد بنا لیا ہے ۔ (الاسلام اصولہ ومبادئہ: ڈاکٹر محمد السحیم) ۔
عصر حاضر میں عورت جب گھر سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کیا تو اسے ہوٹلوں میں ریسیپشنمیں، ہسپتالوں میں بطور نرس، ہوائی جہازوں میں بحیثیت ایئر ہوسٹس، مخلوط تعلیم گاہوں میں بحیثیت طالبات اور ٹیچرس، تھیٹروں میں بحیثیت اداکارہ یا گلوکارہ، مختلف ذرائع ابلاغ میں بحیثیت اناؤنسر بٹھادیا گیا، جہاں وہ اپنی خوبروئی ، دلفریب ادا اور شیریں آواز سے لوگوں کی ہوس نگاہ کا مرکز بن گئی، فحش رسائل واخبارات میں ان کی ہیجان انگیز عریاں تصویر چسپاں کرکے مارکیٹنگ کا وسیلہ بنایا گیا تو تاجروں اور صنعتی کمپنیوں نے اسی نوعیت کی فحش تصویر اپنے سامان تجارت اور مصنوعات میں آویزاں کرکے انہیں فروغ دینے کا ذریعہ بنا لیا۔یہی نہیں بلکہ جس کی نظر آج کی فحاشی وعریانیت پر ہے وہ اچھی طرح واقف ہے کہ مس ورلڈ، مس یونیورس اور مس ارتھ کے انتخابی مراحل میں عورت کے ساتھ کیا کھلواڑ نہیں ہوتا ، نیز فلموں میں اداکاری کے نام پر اور انٹرنیٹ کے مخصوص سائٹ پر اس کی عریانیت کے کون سے رسواکن مناظر ہیں جو پیش نہیں کئے جاتے، اگر یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت وتکریم اور اس کے حقوق پانے کی علامت ہے تو انسانیت کو اپنے پیمانہ عزت وآنر پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔
یاد رہے کہ یہ سب معاملہ عورت کے ساتھ اس وقت تک رکھا جاتا ہے جب تک اس میں مردوں کی کشش ، ابھرتی جوانی کی بہار ، دل ربا دوشیزگی کا جوبن اور شباب وکباب کی رونق رہتی ہے ، لیکن جب اس کے جوبن میں پژمردگی آجاتی ہے، اس کی کشش میں گھن لگ جاتا ہے ، بازاروں میں اس کی قیمت لگنا بند ہوجاتا ہے، اس کے ڈیمانڈ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اس کی ساری مادی چمک دمک ماند پڑجاتی ہے تو یہ کافرمعاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے ،وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے اس کوچھوڑ دینے میں عافیت سمجھتے ہیںاوروہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہے یا پھر پاگل خانوں میں۔
یہ ہے آزادی نسواں کی موجودہ کڑوی حقیقت اور یہ ہے اس کا حتمی برا انجام ، آزادی نسواں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مغربی مصنف یوں رقمطراز ہے:
"وہ نظام جس میں عورت کے میدان عمل میں اترنے اور کارخانوں میں کام کرنے کو ضروری قرار دیا گیا، اس سے ملک کو چاہے کتنی بھی دولت وثروت مہیا ہو جائے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس سے گھریلو زندگی کی عمارت زمیں بوس ہو کر رہ جاتی ہے، کیونکہ اس نظام نے گھر کے ڈھانچہ پر حملہ کرکے خاندانی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور معاشرتی تعلقات وروابط کے سلسلہ کو درہم برہم کر دیا ہے"۔
ایک دوسری مغربی مصنفہ جو کہ پیشہ سے ڈاکٹر بھی ہے، وہ اپنے مغربی معاشرے کے اندر رونما ہونے والے بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوۓ یوں خامہ فرسا ہے:
"خاندانی زندگی میں رونما ہو نے والے بحرانوں کا سبب اور معاشرے میں جرائم کے بکثرت بڑھ جانے کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ عورت نے گھر کی چار دیواری کو الوداع کہا، تاکہ خاندان کی آمدنی دوگنی ہو" 0000 اور واقعی آمدنی تو بہت بڑھ گئی مگر اس سے معیار اخلاق انتہائی نچلی سطح تک گر گیا، تجربات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ آج نسل نو جس بحران میں مبتلا ہے، اسے اس سے بچانے اور نکالنے کا صرف ایک ہی راستہ اور طریقہ ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ عورت کو دوبارہ اس کے اصل مقام یعنی گھر میں واپس لایا جاۓ"۔ (خطبہ حرم، شیخ حسین بن عبد العزیز آل الشیخ بتاریخ 30/8/2002 ء مطابق 21/6/1423ھ) ۔
یہ تو مغربی عورت کو ملی آزادی اور اس کی حالت زار کی ایک جھلک ہے، مسلم عورت کو مسٹر پیر کریٹس اس طرح خراج پیش کرتا ہے:
"محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے برقعہ پوش مسلم خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں وہ حقوق حاصل ہوگئے ہیں جو بیسویں صدی میں ایک تعلیم یافتہ عیسائی عورت کو حاصل نہیں"۔ (اعتراف حق ص 209)
یہاں پہنچ کر بے ساختہ علامہ اقبال کا یہ مصرعہ زبان پر آجاتا ہے:
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش |
|
مجبور ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مند |
کیا چیز ہے آرائش وقیمت میں زیادہ |
|
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلو بند |
یہ سب حقائق ونتائج دیکھ لینے کے بعد کیا کسی مسلمان عورت کو مغربی تہذیب وثقافت اور اس کی چمک دمک کی طرف حسرت بھری اور للچائی نگاہوں سے دیکھنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟؟؟